جو میں نے دیکھا سنا اور سمجھا
ماں کی ٹانگوں سے
لپٹ جاتا تھا اور
پھر مالدار ہوگیا
غربت تنگدستی کی انتہاء! مگر ماں کی خدمت اور بیوی کی عزت کرتا
حج کے سفر کے دوران ایک صاحب سے تعارف ہوا ‘پھر وہ تعارف بڑھتا چلا گیا‘ گفتگو کا رخ اس بات کی طرف ہوا کہ ان کی زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ان کے مزاج میں عاجزی تھی‘ تکبر نہیں تھا حالانکہ بہت مالدار‘ جاگیردار اور سیاست میں بہت نام لیکن اپنی پچھلی زندگی اس کی غربت‘ اس کی تنگدستی اس کا اخلاص وہ نہ بھولے۔ کہنے لگے:
محلے میں کریانےکی دکان جس میں روزانہ پچاس ساٹھ روپے کی بِکری ہوتی تھی ‘ کچھ عرصہ وہ کیا‘ لیکن ماں کی خدمت اور بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہ چھوڑا‘ حالانکہ بہت غربت تنگدستی تھی پھر کراچی کی ایک ٹیکسٹائل مل میں پہلے دو سو روپے پھر تین سو روپے ماہانہ کی نوکری کی‘ باقی وقت میں اخبار سائیکل پر رکھ کر بیچتا تھا‘ روزانہ کبھی بیس‘ کبھی تیس اخبار بیچ لیتا تھا۔ اس میں سے اپنے کھانے کی بچت کرلیتا‘ پھر پانچ سال مکمل برف کے پھٹے پر میں نے برف بیچی‘ آنے ‘دو آنے‘ چار آنے‘ آٹھ آنےروپے کی برف بیچتا تھا۔ پھر میری ترقی ہوئی اور ایک کمپنی میں‘ میں نےنوکری کی‘ پہلے ماہانہ چار ہزار کی نوکری ‘ پھر پانچ ہزار اور پھر سات ہزار ۔ ایک دفتر ایسا تھا کہ جس میں آٹھ آنے کی برف میں روزانہ دیتا تھا۔
کیسا عجیب عظیم شخص ہے! جو بات لوگ چھپاتے ہیں یہ بتارہا
وہ یہ باتیں بتارہے تھے اور میں ٹکٹکی باندھے ان کے چہرےکو د یکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ لوگ تو اپنا عروج چھپاتے ہیں اور اپنی زندگی کا نظام چھپا چھپا کر رکھتے ہیں اور ہر شخص ایک بات کہتا ہے کہ میں پیدائشی مالدار‘ نواب اور سلطان کابیٹا تھا لیکن وہ شخص اپنی زندگی کی سچی حقیقتیں بتارہا تھا اور میں دل ہی دل میں اس کی باتوں کو سن کر عش عش کررہا تھا اور اندرہی اندر کہہ رہا تھا کہ کیساعظیم انسان ہے! جو اپنے حقائق نہیں چھپا رہا اور انہی حقائق نے اس کو عروج ‘کمال‘ دولت اور شہرت دی ہے۔ وہ صاحب سانس لینے کے لیے رکے اوراپنے اردگر د حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پھر اپنی داستان سنانے میں مگن ہوگئے۔ کہنے لگے: میں اس دوران پڑھتا بھی رہا‘ ایف اے کیا‘ پھر بی اے بھی کرلیا۔ سردیوں میں فروٹ کی ریڑھی لگاتا تھا‘ گرمیوں میں برف بیچتا تھا اور پھر کچھ عرصہ ایک سٹور کی کیپری بھی کی۔ الغرض اپنی زندگی میں مسلسل کوشش‘ محنت اور جستجو میں لگا رہا۔ کبھی ماں اور بیوی کی آپس میں اگر کوئی کمی بیشی ہوبھی جاتی تھی تو میں نے دونوںکو سنبھالا‘ دونوں کو ساتھ لے کر چلا اور دونوں کا احترام کیا۔ غربت‘ تنگدستی نے کبھی میرے لہجےکو تلخ نہ ہونے دیا میں ہمیشہ نرم لہجہ لیکن زندگی کی سچائی کو لے کر چلتا رہا‘ آج میرے پلازے ہیں‘ بہت زیادہ کاروبار‘ دولت ‘عزت‘ شہرت سب کچھ ہے اور ساری کائنات ہے لیکن میں آج بھی اپنی نرمی کو اور جھکنے کو نہیں بھولا اور یہ نرمی اور جھکنا ہی تو سمجھتا ہوں کہ میری زندگی کو بہترین بنارہے ہیں۔
عورت سےلڑنا بھی کوئی بہادری ہے!
قارئین! یہ اس شخص کی داستان ہے جس کا ظاہر عروج اور دولت سے مزین ہے کسی نے اس کی ابتدا نہیں دیکھی ہر شخص اس کی انتہا دیکھ کر الجھ جاتا ہے ‘کاش میں بھی ایسا ہوں ‘میرے پاس بھی ایسی گاڑیاں‘ گھر‘ عزت‘ دولت‘ سلام‘ ہٹو بچو اور ہر محفل میں کمال ہو لیکن یہ ہر شخص کو نہیںملتا اور ہر شخص یہ چیز نہیں پاسکتا۔ یہ چیز قسمت والے نصیب والے کو ملتی ہے لیکن قسمت اور نصیب ماں اور مامتا کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ ماںکی عزت ‘ احترام وقار اور مامتا یعنی بیوی سے محبت نرمی درگزر اور پیار۔ مجھے ایک بڑے آدمی کی بات یاد آئی کہنے لگے: عورت سے لڑنا بھی کوئی بہادری ہے۔آئیے! ہم ایک عہد کرتے ہیں کہ زندگی کتنی تلخ ہوجائے‘ زمانہ کتنا ظالم اور ہمیں مجبور کردے‘ دنیا کتنی سختیوں اورسفاکی اور ظلم پر اتر آئے‘ حالات تنگ ہوجائیں‘ غربت اپنی لپیٹ میں لے لے‘ مفلسی کا ہمارے گھر میںراج ہو‘ بیماریاں‘دکھ‘ تکالیف‘ مایوسیاں ہمیں چاروں طرف سے گھیرلیں لیکن نہ گھبرائیں گے‘ نہ تلخ اور کڑوے ہوں گے بلکہ گھر میں نہایت بااخلاق‘ بامروت اور ٹھنڈے میٹھے رہیں گے۔ یادرکھیں! اخلاق گھر سے شروع ہوتے ہیں باہر تو ہر شخص مخلص ہوتا ہے اور میٹھا ہوتا ہے اصل تو گھر میں پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص مخلص ہے‘ میٹھا ہے یا بداخلاق‘ بدتمیز۔بس یہ کرلیں اور پھر اس شخص کی طرح زندگی میںعروج‘ کمال اور عزت دولت پائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں